کیا کوئی اندیشۂ دلگیر لے کر آئی ہے
کیا کوئی اندیشۂ دلگیر لے کر آئی ہے
وہ نظر کیوں جذبۂ تحقیر لے کر آئی ہے
ہو گیا نذر تعصب جب مکان آشتی
تب حمیت جذبۂ تعمیر لے کر آئی ہے
دار پر اس سرفروش حق کا کہنا آ اجل
خواب ہستی کی حسیں تعبیر لے کر آئی ہے
ہم نے آزادی کو پایا کتنی قربانی کے بعد
اب سیاست پھر نئی زنجیر لے کر آئی ہے
آج دنیا کو ضرورت ہے سکون و چین کی
فکر نو ایسی کوئی تدبیر لے کر آئی ہے
بس وہی انسان کامل ہے جو قائم رکھ سکے
روح اپنے ساتھ جو تنویر لے کر آئی ہے
دست تدبیر و عمل شل ہو گئے اترا نہیں
زیست جو پیراہن تقدیر لے کر آئی ہے
صرف دھوکہ ہے مسرت چشم بینا کے لیے
ہر خوشی اک عارضی تاثیر لے کر آئی ہے
اس نگاہ عیب جو سے پوچھتے رہتے ہیں لوگ
آج کس کی آنکھ کا شہتیر لے کر آئی ہے
یہ مناسب ہے کہ آ کر دیکھ جا حالت مری
دفتر پرسش تری تحریر لے کر آئی ہے
خود شناسی کے لیے ناشرؔ مری وارفتگی
میرے ماضی سے مری تصویر لے کر آئی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.