کیوں آنکھ سے سرخی اب چھلکی ہوئی لگتی ہے
کیوں آنکھ سے سرخی اب چھلکی ہوئی لگتی ہے
یہ نیند کی رانی بھی روٹھی ہوئی لگتی ہے
یادوں کا تسلسل ہے گھنگھور جدائی ہے
ساون کی طرح یہ بھی چھائی ہوئی لگتی ہے
سوجھے نہ مداوا کیوں خود میرے مسیحا کو
زخموں کی طرح چاہت رستی ہوئی لگتی ہے
آواز یہ کس نے دی پھر یاد یہ کون آیا
بے تابئ دل کچھ کچھ سنبھلی ہوئی لگتی ہے
گزری ہے گلابوں کو دامن میں خزاں بھر کے
ہر شاخ چمن لیکن مہکی ہوئی لگتی ہے
بازار محبت کے تاجر ہیں ستم پیشہ
اے بانوؔ تری قیمت لگتی ہوئی لگتی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.