لمحہ لمحہ بیت چکا ہے اب جو تم پچھتاؤ تو کیا
دلچسپ معلومات
(1969ء)
لمحہ لمحہ بیت چکا ہے اب جو تم پچھتاؤ تو کیا
بھولی بسری یادیں سب کے آگے بھی دہراؤ تو کیا
کون پرایا درد سمیٹے کون کسی کا یار بنے
اپنا زخم ہے اپنا پیارے لوگوں کو دکھلاؤ تو کیا
پہلے تو تم آگ لگا کر سب کچھ جلتا چھوڑ گئے
دیواریں تاریک ہوئی ہیں اب اس گھر میں آؤ تو کیا
اس کا چہرہ اس کی آنکھیں اس کے لب وہ بات کہاں
رنگ برنگی اخباروں کی تصویریں دکھلاؤ تو کیا
میں اک ایسا پیڑ ہوں جس پر بیٹھ کے سب اڑ جاتے ہیں
تم بھی میری شاخ پہ آ کر بیٹھو اور اڑ جاؤ تو کیا
سوچ کی دھوپ تو کیا کم ہوگی سوچ کی کرنیں عام ہوئیں
رات کے سائے میرے سر کے سورج پر پھیلاؤ تو کیا
توڑ کے پیروں کی زنجیریں میدانوں کا عزم کرو
اپنے گریبانوں کے پرچم کمروں میں لہراؤ تو کیا
اپنے بدن کو صورت ایسی نذر صلیب ظلم کرو
سونے کی معصوم صلیبیں سینوں پر لٹکاؤ تو کیا
کیا کیا شعر کئے ہیں تم نے نقش غزل کی صورت میں
ہم تم کو نقاشؔ کہیں گے تم شاعر کہلاؤ تو کیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.