میں اس خیال سے شرمندگی میں ڈوب گیا
میں اس خیال سے شرمندگی میں ڈوب گیا
کہ میرے ہوتے ہوئے وہ ندی میں ڈوب گیا
سبھی کو ہجر میں دل تو کہیں لگانا تھا
کوئی شراب کوئی شاعری میں ڈوب گیا
نہارتا رہا دریا وہ دیر تک بیٹھا
پھر اس کے بعد اٹھا اور اسی میں ڈوب گیا
جسے جہان کی رنگینیاں ڈبو نہ سکیں
وہ دل کسی کی فقط سادگی میں ڈوب گیا
وہ ہنس رہا تھا مرے ساتھ پھر اچانک ہی
نہ جانے کیا ہوا سنجیدگی میں ڈوب گیا
تلاش کرتے ہیں تہذیب اس صدی میں آپ
یہ آفتاب تو پچھلی صدی میں ڈوب گیا
ہے اس کے رنج کا کچھ علم تجھ کو اے سورج
جو اک ستارا تری روشنی میں ڈوب گیا
کسی نے داد نہ دی دیر تک تو سمجھا میں
ہر ایک شخص مری شاعری میں ڈوب گیا
کسی نے ہم کو پکارا تھا جان کہہ کے سراجؔ
تو روم روم ہمارا خوشی میں ڈوب گیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.