میں خود کو آزمانا چاہتا ہوں
ہوا پر آشیانہ چاہتا ہوں
جو ہمت ہے تو میرے ساتھ آؤ
افق کے پار جانا چاہتا ہوں
جو منت کش نہیں ہیں بال و پر کے
پرندے وہ اڑانا چاہتا ہوں
نگوں کر دے جو طوفانوں کا سر بھی
چراغ ایسا جلانا چاہتا ہوں
سکوں بخشے جو ہر آشفتہ سر کو
غزل ایسی سنانا چاہتا ہوں
نظر آ جائے جس میں عکس جاں بھی
وہ آئینہ بنانا چاہتا ہوں
سراسیمہ پشیماں دل گرفتہ
میں یہ موسم ہٹانا چاہتا ہوں
خیال و خواب جن میں حکمراں ہوں
وہی دنیا بسانا چاہتا ہوں
زیادہ مل گئی رونے سے راحت
ظفرؔ اب مسکرانا چاہتا ہوں
مأخذ:
شعر و حکمت (Pg. 94)
-
- ناشر: مکتبہ شعروحکمت، حیدرآباد
- سن اشاعت: 2003
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.