موجیں اٹھتی ہیں سمندر میں اکیلا میں ہوں
موجیں اٹھتی ہیں سمندر میں اکیلا میں ہوں
ڈوب جاؤں گا کہ منظر میں اکیلا میں ہوں
ہو بھی سکتی ہے ملاقات کسی سائے سے
رات سنسان ہے اور گھر میں اکیلا میں ہوں
یہ جو پرچھائیاں حلقہ ہیں مری روح کے گرد
بیشتر مجھ میں ہیں اکثر میں اکیلا میں ہوں
کوئی چھپ کر کہیں آئینے میں بیٹھا ہوا ہے
میں یہ سمجھا تھا برابر میں اکیلا میں ہوں
وہ کسی دھیان میں گم ہے کسی امکان میں گم
وصل کیا طے ہو کہ بستر میں اکیلا میں ہوں
جانے کس رنگ سے اب مجھ کو جھلکنا ہو گا
جانے اب کون سے منظر میں اکیلا میں ہوں
چاروں اطراف ہے آزرؔ مرے لوگوں کا ہجوم
پھر بھی لگتا ہے جہاں بھر میں اکیلا میں ہوں
- کتاب : سورج مکھی کا پھول (Pg. 34)
- Author : دلاور علی آزر
- مطبع : ریختہ پبلی کیشنز (2022)
- اشاعت : 2nd
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.