میرے کمرے سے ترے خط جو پرانے نکلے
میرے کمرے سے ترے خط جو پرانے نکلے
چند لمحوں میں کئی گزرے زمانے نکلے
جو نہیں ملتا اسے ڈھونڈ کے لانے نکلے
ایسا لگتا ہے کہ ہم خود کو گنوانے نکلے
میری آنکھوں میں سماعت کی صفت جاگ اٹھی
تیری خاموشی سے باتوں کے خزانے نکلے
یہ اگر خواب نہیں ہے تو کہو پھر کیا ہے
نیند میں جو ہیں وہ دنیا کو جگانے نکلے
دل بھٹکنے لگا ماضی کی گزر گاہوں میں
باتوں باتوں میں تمہارے جو فسانے نکلے
یہ حسیں ہونٹ یہ رخسار یہ آنکھیں یہ بدن
پارساؤں کے بھی تم ہوش اڑانے نکلے
لوگ کہتے تھے میں جس راہ میں مر جاؤں گا
بس اسی راہ سے جینے کے بہانے نکلے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.