میری متاع سوز غم دل نہیں رہا
میری متاع سوز غم دل نہیں رہا
میں روزگار شوق کے قابل نہیں رہا
کب سے یہ سر ہے دوش پر اپنے وبال دوش
کیا شہر بھر میں ایک بھی قاتل نہیں رہا
طے کی شکست دل سے رہ اضطراب دل
یہ مرحلہ بھی خیر سے مشکل نہیں رہا
دیکھے ہیں چشم غیر سے عیب و ہنر تمام
خود آگہی سے میں کبھی غافل نہیں رہا
حاصل مراد کوشش مشکور سے نہیں
جادہ بھی اب وسیلۂ منزل نہیں رہا
سرگشتہ روح قیس ابھی تک ہے دشت میں
ہرچند وہ سوار وہ محمل نہیں رہا
جس دن سے دی گئی ہے شکست اپنے آپ کو
اس دن سے کوئی مد مقابل نہیں رہا
پیہم ملی ہے عزت رسوائی عشق میں
کس روز یہ شرف مجھے حاصل نہیں رہا
سیراب موج موج سے رہنے کے باوجود
کب تشنہ کام بحر سے ساحل نہیں رہا
کیا حق کے حق نہ رہنے کا شکوہ کرے کوئی
باطل بھی حق تو یہ ہے کہ باطل نہیں رہا
اب حسن کو ہے دیدۂ مشتاق کی تلاش
شاید اک آئنہ بھی مقابل نہیں رہا
تابشؔ یہ خوف ہے کہیں خنجر بکف نہ ہو
گردن میں اب جو ہاتھ حمائل نہیں رہا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.