میری تقدیر کو کچھ اور نکھر جانے دے
میری تقدیر کو کچھ اور نکھر جانے دے
ٹھہر اے کاتب تقدیر سنور جانے دے
دم تو لے گردش ایام ستم کیوں اتنا
منزل عشق کو بس پار تو کر جانے دے
دیکھنے والوں پہ پابندیٔ دیدار ہے کیوں
رخ مہتاب نما تک تو نظر جانے دے
اشک آنکھوں سے نکلنے کو مچلتے ہیں مرے
چشم محزوں کے یہ موتی ہیں بکھر جانے دے
کالی بدلی میں نظر آنے دے مہتاب ذرا
زلف پر پیچ سے شانوں کو سنور جانے دے
زخم گہرے ابھی کھانے کی ہے طاقت باقی
تیر جتنے ہیں پئے قلب و جگر جانے دے
شب تاریک میں مدت سے بھٹکتا ہے اسدؔ
یک قدم اس کو ذرا سوئے سحر جانے دے
مأخذ:
امید سحر (Pg. 77)
- مصنف: اسد احمد مجددی اسد
-
- ناشر: اسباق پبلی کیشنز، پونہ
- سن اشاعت: 2009
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.