ملنے کا امکان بنائے بیٹھے ہو
کس کو دل اور جان بنائے بیٹھے ہو
برسیں آخر بارش جیسے کیوں آنکھیں
تم بادل مہمان بنائے بیٹھے ہو
دشت کی خاک سمیٹی میں نے پلکوں سے
گھر اپنا دالان بنائے بیٹھے ہو
کس کے آنے کی امید میں آخر یوں
رستے کو گلدان بنائے بیٹھے ہو
کون کسی کی یاد بھلائی جانے کو
تم آنگن شمشان بنائے بیٹھے ہو
قسمیں وعدے جھوٹے جس کی خاطر تم
دل اپنا ویران بنائے بیٹھے ہو
تنہا تنہا رہتے ہو عاصمؔ تنہاؔ
یہ کیسی پہچان بنائے بیٹھے ہو
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.