مثل دریا کے اگر اشک فشانی ہوتی
آنسوؤں میں صفت سیل روانی ہوتی
گر اجل اور بہانوں سے بھی آنی ہوتی
پھر شب ہجر نہ یوں دشمن جانی ہوتی
یار تک کشتیٔ تن بہ کے پہنچتی میری
قلزم اشک میں اتنی تو روانی ہوتی
ان کے ابرو کے اگر وصف سراسر لکھتا
صورت تیغ قلم میں بھی روانی ہوتی
سامری بحث میں کیا تم سے مقابل ہوتا
مردے جی اٹھتے اگر سحر بیانی ہوتی
قصۂ قیس میں کیونکر نہ جدادت کرتا
لطف کیا ہوتا کہانی جو پرانی ہوتی
چشم جادو کی بیاں کرتے اگر وہ تعریف
لب عیسیٰ میں بھی پھر سحر بیانی ہوتی
ایک ہی دن کے لئے وصل پہ راضی ہوتے
میری منت تو کوئی آپ نے مانی ہوتی
یہ ہوا ہوتی نہ پھر ان کے ہوا خواہوں میں
مرگ عاشق کی خبر گر نہ اڑانی ہوتی
گر دکھاتا کرم ذہن رسا فیض مجھے
صورت بحر طبیعت میں روانی ہوتی
سن کے رو دیتے حضور آپ بھی میری صورت
جب بیاں اس دل مردہ کی کہانی ہوتی
درد دل میں جو بیاں کرنے لگا ہنس کے کہا
ہم بھی سنتے جو نئی کوئی کہانی ہوتی
فیض گر پیکر تصویر میں ہوتا تیرا
خوں کی رگہائے بدن میں بھی روانی ہوتی
تن پہ کھاتا نہ میں کیوں شوق سے گل چھلوں کے
پاس کوئی تو محبت کی نشانی ہوتی
کاش پڑتے رخ نازک پہ نشان بوسوں کے
کچھ نہ کچھ وصل کے پاس ان کی نشانی ہوتی
ان کا بسمل جو تڑپ کر نہ لحد میں جاتا
لاش احباب کو کاندھوں پہ اٹھانی ہوتی
خط مجھے دے کے جو پیغام بھی دیتا قاصد
گفتگو اس کی پیمبر کی زبانی ہوتی
آندھیاں بعد فنا پھر نہ لحد پر آتیں
ان ہواؤں کو نہ گر خاک اڑانی ہوتی
سن کے رہ جاتے کلیجے کو پکڑ کے اپنے
دل پر درد کی ایسی تو کہانی ہوتی
گردنیں آپ سے کٹتیں نہ ہزاروں کی کبھی
باڑھ پر وہ نہ اگر تیغ جوانی ہوتی
خاک اڑاتا نہ اگر عشق بتاں کے پیچھے
ہائے برباد نہ یوں میری جوانی ہوتی
عشق ہوتا نہ حسینان جہاں کا مجھ کو
آپ معشوق اگر میری جوانی ہوتی
اپنے ہاتھوں سے کبھی قتل نہ کرتے فاخرؔ
مہندی گر خون کی ان کو نہ لگانی ہوتی
مأخذ:
کارنامۂ نظم (Pg. 256)
-
مصنف:
فاخر لکھنوی
-
- ناشر: منشی نول کشور، لکھنؤ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.