میاں مجبوریوں کا ربط اکثر ٹوٹ جاتا ہے
میاں مجبوریوں کا ربط اکثر ٹوٹ جاتا ہے
وفائیں گر نہ ہوں بنیاد میں گھر ٹوٹ جاتا ہے
شناور کو کوئی دلدل نہیں دریا دیا جائے
جہاں کم ظرف بیٹھے ہوں سخنور ٹوٹ جاتا ہے
انا خود دار کی رکھتی ہے اس کا سر بلندی پر
کسی پورس کے آگے ہر سکندر ٹوٹ جاتا ہے
ہم اپنے دوستو کے طنز سن کر مسکراتے ہیں
مگر اس وقت کچھ اندر ہی اندر ٹوٹ جاتا ہے
مرے دشمن کے جو حالات ہیں ان سے یہ ظاہر ہے
کہ اب شیشے سے ٹکرانے پہ پتھر ٹوٹ جاتا ہے
سنجو رکھی ہیں دل میں قیمتی یادیں مگر پھر بھی
بس اک نازک سی ٹھوکر سے یہ لاکر ٹوٹ جاتا ہے
کنارے پر نہیں اے دوست میں خود ہی کنارہ ہوں
مجھے چھونے کی کوشش میں سمندر ٹوٹ جاتا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.