مضطرب روح میں تسکین کے ساماں آئے
مضطرب روح میں تسکین کے ساماں آئے
عمر میں ایسے بھی لمحات فروزاں آئے
شمع احساس خودی میں نے فروزاں کر لی
دل کی وادی میں ہزار آنے کو طوفاں آئے
درد بڑھتا ہی گیا کچھ بھی افاقہ نہ ہوا
غم کدوں میں تو بہت درد کے درماں آئے
آتش بغض سلگتی ہے یہاں گھر گھر میں
اب نہ بستی میں کوئی واعظ ناداں آئے
میں نوازا گیا ہر وقت بیابانوں سے
میرے حصے میں فقط خواب گلستاں آئے
خانۂ دل میں سمٹ آئے ہیں چپکے چپکے
مسئلے کتنے بانداز خراماں آئے
بے قراری کا ستم ختم ہوا ہے جس پر
پھر تری زد میں نہ اے گردش دوراں آئے
تم بھی بیتابؔ ذرا سوچ سمجھ کر جانا
کوچۂ عشق سے سب لوگ ہراساں آئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.