Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

نہ بکھرایا کرو تم بیٹھے بیٹھے زلف پیچاں کو

نشترچھپروی

نہ بکھرایا کرو تم بیٹھے بیٹھے زلف پیچاں کو

نشترچھپروی

MORE BYنشترچھپروی

    نہ بکھرایا کرو تم بیٹھے بیٹھے زلف پیچاں کو

    خدا کے واسطے دیکھو مرے حال پریشاں کو

    عجب انداز سے پس پس کے ہونٹوں سے نکلتی ہے

    کروں قربان تیری اک نہیں پر سینکڑوں ہاں کو

    خدا جانے مزا آتا ہے کیا اس میں کہ ہنس ہنس کر

    وہ پہروں دیکھتے رہتے ہیں میرے زخم خنداں کو

    انہیں پھر اس نے بھڑکایا ہوئے گرم جفا پھر وہ

    الٰہی آگ لگ جائے ہماری چشم گریاں کو

    قیامت کا سماں پھرنے لگا ہے میری آنکھوں میں

    کہ جب سے میں نے دیکھا ہے کسی کی چشم فتاں کو

    بڑھی دیوانگی میری کچھ ایسی عشق گیسو میں

    کہ میرے نام سے ہوتی ہے وحشت اب بیاباں کو

    گئے وہ دن مناتے تھے کسی کے ساتھ ہم ساون

    کہ اب تو دیکھتے رہتے ہیں اپنی چشم گریاں کو

    ابھی تو ہے شروع فصل گل جوش جنوں تازہ

    رفو کیوں لوگ کرتے ہیں مرے چاک گریباں کو

    ترے آتے ہی جھاڑو پھر گئی کس کس کو روئیں ہم

    الم کو یاس کو حسرت کو بیتابی کو ارماں کو

    مرے شیون سے تو آزردہ تھے پھر رو دئیے آخر

    نظر آیا جو میں جاتا ہوا شہر خموشاں کو

    بڑھے پھر ناخن وحشت کہ ایام بہار آئے

    ذرا ہشیار رہنا اے ہمارے زخم کے ٹانکو

    مری آنکھیں ہی دشمن ہو گئیں حق میں مرے آخر

    اسی رستے اتارا اس نے دل میں تیر مژگاں کو

    بلا سے گر ہماری جان مضطر پر گرے بجلی

    اسی انداز سے اک بار پھر غرفے سے تم جھانکو

    ہوئی جاتی ہے کیا کیا لوٹ اس پر رحمت باری

    کوئی دیکھے تو محشر میں ہماری شرم عصیاں کو

    نہ رکھا جانے کے قابل مجھے بیتابیٔ دل نے

    کیا تھا میں نے کس مشکل سے راضی اس کے درباں کو

    مجھے سر پھوڑنے کی آرزو تھی یوں ہوئی پوری

    گرایا سر پہ سیل اشک نے دیوار زنداں کو

    مرے گریہ کی طغیانی ہے گویا نوح کا طوفاں

    گرایا سر پہ سیل اشک نے دیوار زنداں کو

    کسی یوسف لقا کی یاد میں رویا ہوں میں اتنا

    گرایا سر پہ سیل اشک نے دیوار زنداں کو

    مرا بے خانماں ہونا مری قسمت میں لکھا تھا

    گرایا سر پہ سیل اشک نے دیوار زنداں کو

    مری جانب سے ہے دل میں غبار اس بے مروت کے

    نکالے گا وہ پھر کیا خاک میرے دل کے ارماں کو

    خلش کا ذائقہ مد نظر ہے مجھ کو اے ہمدم

    جگہ کیوں کر نہ دوں دل میں کسی کی نوک مژگاں کو

    وہ آئے تو مٹے جاتے ہیں کیوں یہ ماجرا کیا ہے

    الٰہی ہو گیا یہ کیا مری حسرت کو ارماں کو

    پھڑکتی ہے رگ گردن مری کیوں آج پھر نشترؔ

    چڑھایا سان پر قاتل نے شاید تیغ براں کو

    مأخذ:

    دیوان نشتر (Pg. 100)

    • مصنف: نشترچھپروی
      • ناشر: ستارۂ ہند پریس لمیٹڈ، کلکتہ
      • سن اشاعت: 1930

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے