نواح جاں میں کہیں ابتری سی لگتی ہے
نواح جاں میں کہیں ابتری سی لگتی ہے
سکون ہو تو عجب بیکلی سی لگتی ہے
اک آرزو مجھے کیا کیا فریب دیتی ہے
بجھے چراغ میں بھی روشنی سی لگتی ہے
گئی رتوں کے تصرف میں آ گیا شاید
اب آنسوؤں میں لہو کی کمی سی لگتی ہے
اسی کو یاد دلاتا ہے بار بار دماغ
وہ ایک بات جو دل میں انی سی لگتی ہے
کہ روز ایک نیا گل کھلاتی رہتی ہے
یہ کائنات کسی کی گلی سی لگتی ہے
کبھی تو لگتا ہے گمراہ کر گئی مجھ کو
سخن وری کبھی پیغمبری سی لگتی ہے
جناب شیخ کی محفل سے اٹھ چلو کہ سہیلؔ
یہاں تو نبض دو عالم رکی سی لگتی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.