نیا خیال کبھی یوں دماغ میں آیا
نیا خیال کبھی یوں دماغ میں آیا
کہ شعلہ چلتا ہوا خود چراغ میں آیا
بدن پہ اس کے تھی شوخی بھری قبائے بہار
وہ ایک باغ کے ہمراہ باغ میں آیا
پریشاں تنگئ جا سے ہے گرچہ دود بہت
یہ کم ہے داغ کا سرمایہ داغ میں آیا
کسی نے ڈال دیا شک کسی گئے کل پر
میں مڑ کے حال سے اس کے سراغ میں آیا
میں سوچتا تھا اسے کیا بھلا بھی پاؤں گا
مگر یہ کام بڑے ہی فراغ میں آیا
وفور گرمئ اندیشہ نے خراب کیا
کہ بال تندئ مے سے ایاغ میں آیا
اکیلا گھومتا پھرتا رہا میں دریا پر
وہاں سے شام ڈھلے ایک باغ میں آیا
قریب آخر شب ختم ہو گئی محفل
اور اس کے ساتھ دھواں بھی چراغ میں آیا
وہ میرے ساتھ تھا جب تک تو ٹھیک تھا شاہیںؔ
فتور بعد میں اس کے دماغ میں آیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.