نظر حیرت زدہ سی ہے قدم بہکے ہوئے سے ہیں
نظر حیرت زدہ سی ہے قدم بہکے ہوئے سے ہیں
شباب آیا ہے ان پر اور ہم بہکے ہوئے سے ہیں
ابھی ان کے کرم کی بات اپنے حسن ظن تک ہے
مگر امید واران کرم بہکے ہوئے سے ہیں
وفا کے سلسلے میں ہو ہی جاتی ہے غلط فہمی
وہ بہکائے گئے سے ہیں نہ ہم بہکے ہوئے سے ہیں
بڑے ذی ہوش بنتے تھے مئے عشرت کے متوالے
ہوا ہے جب سے کچھ احساس غم بہکے ہوئے سے ہیں
انہیں آئینہ رخ کہئے انہیں کے سامنے جا کر
یہ اندازہ تو ہوتا ہے کہ ہم بہکے ہوئے سے ہیں
کہا کرتے تھے ہم اکثر کہ راہ زندگی ہے کیا
جو اب دیکھے ہیں اس کے پیچ و خم بہکے ہوئے سے ہیں
مری دنیا ہے یہ اہل جنوں کیا ہوش والے کیا
مری دنیا میں سب ہی بیش و کم بہکے ہوئے سے ہیں
خدا رکھے چلے ہیں منزل جاناں کو سر کرنے
وہ دیکھو نا یہیں جن کے قدم بہکے ہوئے سے ہیں
ہر اک نے مجھ کو دیوانہ ہی ٹھہرایا ہے اے محشرؔ
سبھی قصہ نگاروں کے قلم بہکے ہوئے سے ہیں
مأخذ:
Sahbaa-o-Saman (Pg. 78)
-
- اشاعت: 1st 1979 IInd 2008
- سن اشاعت: 1st 1979 IInd 2008
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.