پہاڑ جو کھڑا ہوا تھا خواب سا خیال سا
پہاڑ جو کھڑا ہوا تھا خواب سا خیال سا
بکھر گیا ہے راستے میں گرد ماہ و سال سا
نظر کا فرق کہئے اس کو ہجر ہے وصال سا
عروج کہہ رہے ہیں جس کو ہے وہی زوال سا
تمہارا لفظ سچ کا ساتھ دے سکا نہ دور تک
مثال جس کی دے رہے ہو ہے وہ بے مثال سا
خلوص کے ہرن کو ڈھونڈ کر ریا کے شہر میں
مرے عزیز کر رہے ہو تم عجب کمال سا
عداوتوں کی موج جس زمیں پہ بو گئی نمک
اگے گا سبزہ زار اس جگہ یہ ہے محال سا
شب وصال آئینے میں پڑ گیا شگاف کیوں؟
ہمارا دل تو صاف ہے تمہیں ہے کیوں ملال سا
کرامتؔ حزیں فرار ہو کے حال زار سے
گزشتہ عہد سے ملا تو وہ لگا ہے حال سا
- کتاب : Shakhe Sanobar (Pg. 135)
- Author : Karamat Ali Karamat
- مطبع : Kamran Publications,Odisha (2006)
- اشاعت : 2006
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.