پھر یوں ہوا کہ سایہ درختوں کا جل گیا
پھر یوں ہوا کہ سایہ درختوں کا جل گیا
گرمی سے میرے پاؤں کی رستہ پگھل گیا
پھر یوں ہوا کہ چیخ اٹھا بام آسماں
اور آفتاب روز جدائی کا ڈھل گیا
پھر یوں ہوا کہ پڑ گیا زنجیر میں شگاف
اور اس شگاف سے مرا نوحہ نکل گیا
پھر یوں ہوا کہ شاخ بدن سنسنا اٹھی
میں نے یہ سمجھا گویا کوئی تیر چل گیا
پھر یوں ہوا کہ سرخ درختوں کی چھاؤں میں
میرے سفید عشق کا موسم بدل گیا
پھر یوں ہوا کہ دائرے میں آگ لگ گئی
کیا جانے عشق کون سا کر کے عمل گیا
پھر یوں ہوا کہ چڑھ گیا تیزاب کا نشہ
اپنے ہی خون پر مرا پاؤں پھسل گیا
پھر یوں ہوا کہ چلنے لگیں گولیاں شفقؔ
میں اس گلی میں لوٹ کے گھٹنوں کے بل گیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.