پیری میں دل شباب کا خواہاں کہاں رہا
افلاس میں عروج کا ارماں کہاں رہا
سجدہ کیا بتوں کو تو ایماں کہاں رہا
اے بندۂ خدا تو مسلماں کہاں رہا
اعمال بد پہ اپنے جو رویا دم فنا
میرا سیاہ نامۂ عصیاں کہاں رہا
منصور نے کہا جو انا الحق ہوا نہ ضبط
سب راز فاش ہو گیا پنہاں کہاں رہا
رندوں کو پیٹھ پیچھے برا کہہ رہا ہے تو
واعظ مجھے بتا تو مسلماں کہاں رہا
رفتار یار دیکھ کے نادم ہوا کہاں
کبک دری چمن میں خراماں کہاں رہا
ان سے ضیائے چہرۂ جاناں جو دیکھ لے
تابندہ چرخ پر مہ تاباں کہاں رہا
اللہ رے زور دست جنوں کا بہار میں
سالم ہر ایک تار گریباں کہاں رہا
فصل بہار میں تھا یہ میرے جنوں کا زور
دامن کہاں رہا ہے گریباں کہاں رہا
نکلی جو روح جسم سے بیگانہ ہو گئی
تھا جو کہ اتحاد تن و جاں کہاں رہا
سنتے ہی عیب اور ہنر اس کا دیکھ لے
ایسی صفت کا کوئی سخنداں کہاں رہا
موسیٰ کو طور پر جو تجلی نظر پڑی
وارفتگی میں ہوش کا ساماں کہاں رہا
نظارہ روز کرتا تھا روئے نگار کا
پوشیدہ میری آنکھ سے قرآں کہاں رہا
سمجھے ہیں گھر خدا کا یہ بت خانہ وہ حرم
پھر اتفاق کفر و مسلماں کہاں رہا
کانٹوں میں پھنس کے ہو گیا صد چاک شکل گل
سالم بہار میں مرا داماں کہاں رہا
شمع سحر کی طرح سے بے نور ہو گیا
پیری میں داغ عشق نمایاں کہاں رہا
ہو نکتہ سنجیوں سے تری شاد اے وفاؔ
ایسا جہاں میں کوئی سخنداں کہاں رہا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.