قدم انساں کا راہ دہر میں تھرا ہی جاتا ہے
قدم انساں کا راہ دہر میں تھرا ہی جاتا ہے
چلے کتنا ہی کوئی بچ کے ٹھوکر کھا ہی جاتا ہے
نظر ہو خواہ کتنی ہی حقائق آشنا پھر بھی
ہجوم کشمکش میں آدمی گھبرا ہی جاتا ہے
خلاف مصلحت میں بھی سمجھتا ہوں مگر ناصح
وہ آتے ہیں تو چہرے پر تغیر آ ہی جاتا ہے
ہوائیں زور کتنا ہی لگائیں آندھیاں بن کر
مگر جو گھر کے آتا ہے وہ بادل چھا ہی جاتا ہے
شکایت کیوں اسے کہتے ہو یہ فطرت ہے انساں کی
مصیبت میں خیال عیش رفتہ آ ہی جاتا ہے
شگوفوں پر بھی آتی ہیں بلائیں یوں تو کہنے کو
مگر جو پھول بن جاتا ہے وہ کمھلا ہی جاتا ہے
سمجھتی ہیں مآل گل مگر کیا زور فطرت ہے
سحر ہوتے ہی کلیوں کو تبسم آ ہی جاتا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.