قدموں کی آہٹیں بھی نہ آئیں نکل گئے
قدموں کی آہٹیں بھی نہ آئیں نکل گئے
یہ ماہ و سال چال قیامت کی چل گئے
حالات کی یہ دھوپ یہ آتش مزاج وقت
جو آہنی تھے حوصلے وہ بھی پگھل گئے
لغزش میں بھی ہماری ہے انداز رہبری
ہم گر گئے یہ دیکھ کے تم تو سنبھل گئے
تعمیر جن سے ہونی تھی تخریب ہو گئی
امرت کی جن سے آس تھی وہ زہر اگل گئے
تعبیر کی تلاش میں اک عمر گھوم کر
حالات کے الاؤ میں سب خواب جل گئے
اب کیا رہا ہے جینے کو اپنی حیات میں
دنیا تو بدلی بدلی ہے تم بھی بدل گئے
اشہرؔ بہ فیض راہبران ستم شعار
روحیں بھی کانپ سی گئیں دل بھی دہل گئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.