قید ہستی میں ہوں اپنے فرض کی تعمیل تک
قید ہستی میں ہوں اپنے فرض کی تعمیل تک
اک نئی دنیا نئے انسان کی تشکیل تک
دام ہم رنگ زمیں پھیلا دیا صیاد نے
وادیٔ گنگ و جمن سے رود بار نیل تک
آنکھ سے بہہ جائے گا دل میں اگر باقی رہا
قطرۂ خوں داستان درد کی تکمیل تک
شاعری کا ساز ہے وہ ساز ہو جس ساز میں
نغمۂ روح الامیں سے بانگ اسرافیل تک
تو ہی اسرار سخن سے ہے ابھی نا آشنا
ورنہ اس اجمال میں موجود ہے تفصیل تک
بس نہیں چلتا ہے ان کا ورنہ یہ ظلمت پرست
اپنی پھونکوں سے بجھا دیں عرش کی قندیل تک
اشکؔ اپنے سینۂ پر خوں میں سیل اشک بھی
روک رکھتا ہوں جگر کے خون کی تحلیل تک
مأخذ:
Rooh-e-Ghazal,Pachas Sala Intekhab (Pg. 166)
-
- اشاعت: 1993
- ناشر: انجمن روح ادب، الہ آباد
- سن اشاعت: 1993
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.