قرنوں پرانا وقت کو للکارتا ہوا
قرنوں پرانا وقت کو للکارتا ہوا
اک شہر ہے ہمارے بھی اندر بسا ہوا
سلجھا رہا تھا ارض و سما کی وہ گتھیاں سبھی
سب کے لیے خود ایک معمہ بنا ہوا
شاید نظام شمسی کے سینے کا خواب تھا
میں دیکھتا رہا جسے آنکھیں بنا ہوا
اب اس کو آفتاب میں ڈھلنے کا حکم دو
اک اشک غم ہے نوک مژہ پر کھڑا ہوا
خود میں نہ جذب کر لوں کہیں تیری ذات کو
سر تا قدم میں ذوق طلب میں رچا ہوا
پھر چھا رہا ہے ذہن پر اک سایہ دوستو
سب کچھ سمیٹتا ہوا خود پھیلتا ہوا
تنہا تمہیں تو مرکز اسرار دل نہ تھے
میں بھی وہیں کہیں تھا تمہیں دیکھتا ہوا
روحیں نہ جانے کون سی دنیا میں کھو گئیں
اک جسم چیختا ہے سڑک پر پڑا ہوا
کب تک رہوں ہزار جہاں در جہاں لیے
میں درمیاں ازل اور ابد کے کھڑا ہوا
امید کوئی حرف و حکایت سے تھی کسے
لیکن نگاہ ناز تجھے بھی یہ کیا ہوا
آنکھوں میں آ کے جان کھڑی دیکھتی رہی
ہاتھوں سے دامن غم دل چھوٹتا ہوا
حیرتؔ کہاں تھے دست بہ دل دیکھتے ہوئے
بارش میں بھیگتا ہوا شعلہ بنا ہوا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.