قربت بڑھا بڑھا کر بے خود بنا رہے ہیں
میں دور ہٹ رہا ہوں وہ پاس آ رہے ہیں
اعجاز پاک بازی حیرت میں لا رہے ہیں
دل مل گیا ہے دل سے پہلو جدا رہے ہیں
وہ دل سے غم بھلا کر دل کو لبھا رہے ہیں
گزرے ہوئے زمانے پھر پھر کے آ رہے ہیں
سینے میں ضبط غم سے چھالا ابھر رہا ہے
شعلے کو بند کر کے پانی بنا رہے ہیں
معنی نہ پوچھ ظالم اس عذر بے گنہ کے
اپنے کو اول دے کر تجھ کو بچا رہے ہیں
اے بے خودی کہاں ہے جلدی مری خبر لے
بھولے تھے جو بہ مشکل پھر یاد آ رہے ہیں
لیں کام ضبط سے کیا الٹا ہے دل کا پھوڑا
اتنا ابھر رہا ہے جتنا دبا رہے ہیں
فرقت میں ساز راحت ساماں عذاب کا ہے
ٹھنڈی ہوا کے جھونکے کیا جی جلا رہے ہیں
ہیں حسن کے کرشمے کیا انقلاب آگیں
غم خوار جو تھے کل تک اب خار کھا رہے ہیں
خود ان کی جستجو میں ہم دور بھاگے ورنہ
وہ کب الگ رہے ہیں وہ کب جدا رہے ہیں
لے لے کے ٹھنڈی سانسیں پوچھو نہ حال دیکھو
تم بھید کھولتے ہو اور ہم چھپا رہے ہیں
دیکھ آرزوؔ یہ رونا شانہ ہلا ہلا کر
تو آج خواب میں ہے اور وہ جگا رہے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.