راہ دیکھوں تو مری تاب سفر جاتی ہے
راہ دیکھوں تو مری تاب سفر جاتی ہے
یہ نظر ہے کہ جو تا حد نظر جاتی ہے
میں نے سوچا تھا کہ یہ موج گزر جائے گی
میں سمجھتا تھا کہ ہر موج گزر جاتی ہے
اک مرا دل کہ سمندر سے نہ سیراب ہوا
اور یہ آنکھ کہ اک اشک سے بھر جاتی ہے
بین ہوتے ہیں نہ اٹھتا ہے جنازہ کوئی
عشق میں جان بہ انداز دگر جاتی ہے
جانے کس موج میں رہتا ہے سمے کا دریا
جانے کس مد میں یہاں عمر گزر جاتی ہے
وہ جو کرتا ہے دعائیں مرے مر جانے کی
اس تک اب بھی مرے جینے کی خبر جاتی ہے
کرنے آئی ہے وہ تسخیر ہمارے دل کو
ایک لڑکی کہ جو بادل سے بھی ڈر جاتی ہے
گاہے ممکن نہیں لگتا کہ گزر پائے گی
پھر بھی اچھی یا بری سب کی گزر جاتی ہے
سوچنا ہے کہ میں کس آگ میں جلتا ہوں سلیمؔ
دیکھنا ہے کہ مری راکھ کدھر جاتی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.