راہ ستم میں سوز جگر کیسے چھوڑ دیں
راہ ستم میں سوز جگر کیسے چھوڑ دیں
لمبا سفر ہے زاد سفر کیسے چھوڑ دیں
آندھی میں چھوڑتے ہیں کہیں آشیاں پرند
ہم اس ہوا کے خوف سے گھر کیسے چھوڑ دیں
چندن کے بن میں سانپ نکلتے ہی رہتے ہیں
اس ڈر سے خوشبوؤں کے شجر کیسے چھوڑ دیں
جب کچھ نہ تھا تو ہم نے دیا تھا زمیں کو خوں
اب فصل پک چکی تو ثمر کیسے چھوڑ دیں
اے دل وہ دیکھ خیمۂ فردا قریب ہے
تجھ کو فصیل شب کے ادھر کیسے چھوڑ دیں
مانا کہ ایک عمر سے ٹھہری ہوئی ہے رات
انسان ہیں امید سحر کیسے چھوڑ دیں
- کتاب : ہوشیاری دل نادان بہت کرتا ہے (Pg. 76)
- Author :عرفان صدیقی
- مطبع : ریختہ پبلی کیشنز (2023)
- اشاعت : 2nd
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.