رفتہ رفتہ آرزوؤں کا زیاں ہونے کو ہے
رفتہ رفتہ آرزوؤں کا زیاں ہونے کو ہے
درہمی کچھ ایسی زیر آسماں ہونے کو ہے
پا شکستہ ہو گئے ہیں ہم کڑکتی دھوپ میں
شام غم اب دیکھیے کب اور کہاں ہونے کو ہے
بے رخی گر آپ کی اے جان جاں یوں ہی رہی
آخرش کار وفا دل پر گراں ہونے کو ہے
ڈر ہے دل آسودۂ حرماں نہ ہو جائے کہیں
آگ تھی روشن جہاں وہ خاکداں ہونے کو ہے
چشمک برق و شرر سے رات آنکھوں میں کٹی
سن رہے ہیں صبح نو اب زرفشاں ہونے کو ہے
کل تلک تو چل رہی تھی دل جلوں کی داستاں
آج ان کا ذکر زیب داستاں ہونے کو ہے
اس قدر ہے حسرت ناکام کا راہیؔ غبار
نقش پائے آرزو بھی بے نشاں ہونے کو ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.