رہے میری طرف سے خون کیوں قاتل کی گردن پر
رہے میری طرف سے خون کیوں قاتل کی گردن پر
وہ بسمل ہوں کہ آنے دی نہ میں نے چھینٹ دامن پر
محبت ہے بری شے دور کیوں جاؤ ہمیں دیکھو
ہمیں نے بارہا سر رکھ دیا ہے پائے دشمن پر
تمہارے نقش پا اک حشر کی تمہید ہیں گویا
قیامت کی نشانی دیکھتا ہوں قبر دشمن پر
جو ہونا تھا ہوا گھر جاؤ اس سے فائدہ کیا ہے
جگر تھامے ہوئے بیٹھے ہو کیوں اب میرے مدفن پر
فرشتے ساتھ والے حشر میں کچھ تو سہارا دیں
قدم اٹھتا نہیں ہے بار عصیاں وہ ہے گردن پر
خدا کی شان ہے وہ قتل کرنے آئے ہیں مجھ کو
جنہیں تلوار تک رکھنا نہیں آتی ہے گردن پر
دکھا دی حد دل بسمل نے آداب محبت کی
نماز صبح محشر تک پڑھی قاتل کے دامن پر
ابھی تو ہنس رہے ہیں کل خزاں میں حشر کیا ہوگا
ہنسی آتی ہے مجھ کو خندۂ گل ہائے گلشن پر
نہ چھوڑے خار تلووں نے نا چھوڑی خاک ہاتھوں نے
گئے ہم کیا کہ ڈاکہ پڑ گیا صحرا کے دامن پر
اندھیری رات میں اکثر جلاتی ہے چراغ آکر
ترس آتا ہے بجلی کو بھی بلبل کے نشیمن پر
مرے قاتل کے فریادی ہیں لاکھوں خیر ہو یا رب
کوئی دھبہ نہ آئے عرصۂ محشر کے دامن پر
نشیمن پھونک کر اے برق بجلی کر دیا دل کو
کبھی تڑپا کبھی لوٹا کیا خاک نشیمن پر
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.