رکھا تو ہے سنبھال کے پایا ہوا سا کچھ
رکھا تو ہے سنبھال کے پایا ہوا سا کچھ
لیکن ابھی بھی دل میں ہے کھویا ہوا سا کچھ
یہ کس دیار غیر میں ہے کارواں مرا
محسوس کر رہا ہوں میں بھٹکا ہوا سا کچھ
بیٹھا تو ہوں سمیٹ کے میں اپنے آپ کو
پر تیری رہگزر پہ ہوں بکھرا ہوا سا کچھ
کب تک سنبھال پاؤ گے رشتوں کی ڈور کو
سلجھا ہوا سا کچھ ہے تو الجھا ہوا سا کچھ
خاموشیوں کی عادت بے جا ہے اسقدر
پتا بھی کھڑکھڑائے تو دھڑکا ہوا سا کچھ
ہم نے تمہارے نام پہ تحریر کر تو دی
سوچا ہوا سا کچھ ہے تو لکھا ہوا سا کچھ
آنکھوں میں اشک آئے تھے ہم نے چھپا لئے
ہنستا ہوا سا کچھ ہے تو روتا ہوا سا کچھ
زلفوں کے اس حصار سے باہر نکل سمیرؔ
زلفوں کے اس حصار میں پھنستا ہوا سا کچھ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.