رونقوں پر ہیں بہاریں ترے دیوانوں سے
رونقوں پر ہیں بہاریں ترے دیوانوں سے
پھول ہنستے ہوئے نکلے ہیں نہاں خانوں سے
لاکھ ارمانوں کے اجڑے ہوئے گھر ہیں دل میں
یہ وہ بستی ہے کہ آباد ہے ویرانوں سے
لالہ زاروں میں جب آتی ہیں بہاریں ساقی
آگ لگ جاتی ہے ظالم ترے پیمانوں سے
اب کوئی دیر میں الفت کا طلب گار نہیں
اٹھ گئی رسم وفا ہائے صنم خانوں سے
پاس آتے گئے جس درجہ بیابانوں کے
دور ہوتے گئے ہم اور بیابانوں سے
اب کے ہم راہ گزاریں گے جنوں کا موسم
دامنوں کی یہ تمنا ہے گریبانوں سے
اس زمانے کے وہ مے نوش وہ بدمست ہیں ہم
پارسا ہو کے نکلتے ہیں جو مے خانوں سے
ہائے کیا چیز ہے کیفیت سوز الفت
کوئی پوچھے یہ ترے سوختہ سامانوں سے
پھر بہار آئی جنوں خیز ہوائیں لے کر
پھر بلاوے مجھے آتے ہیں بیابانوں سے
خاک کس مست محبت کی ہے ساقی ان میں
کہ مجھے بوئے وفا آتی ہے پیمانوں سے
غیر کی موت پہ وہ روتے ہیں اور ہم افسرؔ
زہر پیتے ہیں چھلکتے ہوئے پیمانوں سے
مأخذ:
پیام روح (Pg. 94)
- مصنف: افسر میرٹھی
-
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.