سانحہ آج کا یہ کیا کم ہے
سانحہ آج کا یہ کیا کم ہے
آدمی آدمی سے برہم ہے
تیرگی بھی ہنسی اڑاتی ہے
لو چراغوں کی کتنی مدھم ہے
راہ ہستی کہیں نہ جھلسا دے
دھوپ زائد ہے چاندنی کم ہے
رکھئے لہجے میں پیار کی شبنم
زخم دل کا یہی تو مرہم ہے
آدمی پھر بھی تھک ہی جاتا ہے
راستہ گرچہ زیست کا کم ہے
تلخ کیوں بن گئی زباں تیری
دل دکھانے کو آئنہ کم ہے
چھوڑ کر تو ابھی گیا بھی نہیں
شہر دل میں ابھی سے ماتم ہے
مأخذ:
بات کرتی ہے مجھ سے تنہائی (Pg. 92)
- مصنف: ہاتف عارفی فتحپوری
-
- ناشر: پس آئینہ پبلیشرز
- سن اشاعت: 2001
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.