صدمے گزرے ایذا گزری
ہجر میں تیرے کیا کیا گزری
ہجر میں جان رہی یا گزری
رندؔ کہو تم پر کیا گزری
کیا کہوں تجھ سے حال فرقت
گزری جو کچھ جانا گزری
الفت بت نے کر دیا کافر
یہ کیا بار خدایا گزری
آئے نہیں تم عرصہ گزرا
منع کیا کس نے کیا گزری
گزرے جس دم ہم دنیا سے
ہم نے جانا دنیا گزری
بحر جہاں میں زیست ہماری
شکل حباب دریا گزری
کس سے کہیے کون سنے گا
کیا کیا گزرا کیا کیا گزری
کہتا تھا میں عشق سے باز آ
دیکھا جو دل شیدا گزری
مر بھی گئے ہم واہ ری غفلت
ان کو خبر بھی نہ اصلا گزری
اب تو ہے شغل خوں آشامی
نوبت جام و مینا گزری
کافر پر بھی نہ گزرے ایسی
ہم پر جو بت ترسا گزری
وقت مرگ یہ جی میں گزرا
زندگی اپنی بے جا گزری
نالہ کیسا آہ نہیں کی
کیا کیا تجھ بن ایذا گزری
ٹوٹ چکا ہے رشتۂ الفت
یاس ہے اب تو تمنا گزری
دوسرا تجھ سا کوئی نہ دیکھا
پیش نظر اک دنیا گزری
دیکھ کے حال مریض فرقت
حالت ہم پہ مسیحا گزری
قابل دید نہ دیکھیں آنکھیں
مدت نرگس شہلا گزری
غش کیوں آیا ہم سے تو کہیے
کیا کچھ حضرت موسیٰ گزری
کیوں کر جھیلی آفت فرقت
رندؔ کہو دل پر کیا گزری
مأخذ:
Deewan-e-Rind(Guldast-e-ishq) (Rekhta Website) (Pg. 127)
-
مصنف:
رند لکھنوی
-
- اشاعت: 1931
- ناشر: منشی نول کشور، لکھنؤ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.