سفر میں اب کے دریا پڑ گیا ہے
سفر میں اب کے دریا پڑ گیا ہے
ہمیں رستہ بدلنا پڑ گیا ہے
بھروسہ کر لیا تھا روشنی پر
ہمیں یہ داؤں الٹا پڑ گیا ہے
ہمارے پھول مرجھانے لگے ہیں
نہ جانے کس کا سایہ پڑ گیا ہے
تمھارے ہجر میں جھیلی ہے وہ دھوپ
ہمارا رنگ پکا پڑ گیا ہے
بچھڑنے والے کیا تجھ کو خبر ہے
کوئی کتنا اکیلا پڑ گیا ہے
یہ بارش تو بہت دل کش ہے لیکن
ہمیں رستہ میں رکنا پڑ گیا ہے
تمھارے خواب سے بھر لی ہیں آنکھیں
یہ سودا ہم کو مہنگا پڑ گیا ہے
- کتاب : دھوپ میں بیٹھنے کے دن آئے (Pg. 48)
- Author : سنیل آفتاب
- مطبع : ریختہ پبلی کیشنز (2024)
- اشاعت : First
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.