سحر یہ ندی ہے آنسوؤں کی نہ پوچھ اس کا بہاؤ پیارے
سحر یہ ندی ہے آنسوؤں کی نہ پوچھ اس کا بہاؤ پیارے
کہ اس کے طوفان موج غم میں بچے گی کیا دل کی ناؤ پیارے
مجھے تو عادت ہے غم کی راہوں میں چلنے پھرنے کی اے ستم گر
مگر شباب ستم کا تیرے کہاں ہے اگلا پڑاؤ پیارے
یہ رنج و غم یہ تڑپ یہ آہیں یہ حزن و حرماں الم کراہیں
یہی کمایا ہے عمر بھر تو اسی کمائی کو کھاؤ پیارے
غموں سے کس کو ہے رستگاری تو کاہے لب پہ ہے آہ و زاری
اسی کو دینا پڑے گا مرہم دیا ہے جس نے یہ گھاؤ پیارے
ہے اب بھی ثابت کہ پارہ پارہ وہ دل کے رنج و محن کا مارا
غموں سے یاری ہے غم ہی یارا کچھ حال اس کا بتاؤ پیارے
تمہاری روداد درد ہستی یہ شہر یاران کیف و مستی
کہاں چلے آئے ہو بھٹک کے یہ بزم عشرت ہے جاؤ پیارے
مرے خیالوں کی انجمن میں غموں کی اک بھیڑ سی لگی ہے
کہاں بسے ہو خیال جاناں غزل کے سانچے میں آؤ پیارے
جو کھل گیا یہ دہن تو پیارے ہلا کے رکھ دے گا انجمن کو
غوامض خامشی نہ پوچھو تم اپنی محفل سجاؤ پیارے
کساد بازاریٔ نظر میں کہاں تھی تحسین ناز و نخوت
یہ میرا بازار دل تھا جس نے بڑھا دیا تیرا بھاؤ پیارے
ہے شعریت بھی غنائیت بھی ہے اس میں داؤدیت بھی لیکن
غزل کے سینے میں رکھ دیا ہے یہ کس نے غم کا الاؤ پیارے
تمہارا چرچا ہے انجمن میں خموش بیٹھے ہو کیوں سحرؔ تم
بلا سے سمجھے نہ وہ ستم گر تم اپنا دکھڑا سناؤ پیارے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.