Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

سخت جانی کا سہی افسانہ ہے

منیر  شکوہ آبادی

سخت جانی کا سہی افسانہ ہے

منیر  شکوہ آبادی

MORE BYمنیر  شکوہ آبادی

    سخت جانی کا سہی افسانہ ہے

    شاہد تیغ زباں دندانہ ہے

    مقتل عالم مرا ویرانہ ہے

    دیدۂ بسمل چراغ خانہ ہے

    شمع روشن عارض جانانہ ہے

    خال مشکیں شمع کا پروانہ ہے

    دل میں عکس چہرۂ جانانہ ہے

    آئنے کا آئنے میں خانہ ہے

    کون دنیا میں رہے دیوانہ ہے

    ایک اجڑا سا مسافر خانہ ہے

    تیری محفل کعبہ ہے اے شمع رو

    طائر قبلہ نما پروانہ ہے

    آنکھیں ملتا ہوں تمہاری زلف سے

    پنجۂ مژگاں برنگ شانہ ہے

    شمع رویوں کی تجلی دیکھیے

    کرمک شب تاب ہر پروانہ ہے

    آب خنجر کیا شراب ناب تھی

    رقص بسمل لغزش مستانہ ہے

    خلق عالم ہمیں پہنچتا ہے گزند

    نفس امارہ سگ دیوانہ ہے

    بادہ نوشان ازل ہیں سیر چشم

    جس طرف دیکھیں ادھر مے خانہ ہے

    ابر آتا ہے تو بکتی ہے شراب

    نقد رحمت حاصل مے خانہ ہے

    ایک تیرے نام کا کرتا ہوں ذکر

    مجھ کو ورد سبحۂ یکدانہ ہے

    کھاتے ہیں انگور پیتے ہیں شراب

    بس یہی مستوں کا آب و دانہ ہے

    کس طرف کرتے ہو سجدے زاہدو

    کعبہ ایک اجڑا ہوا بت خانہ ہے

    چشم موسیٰ کے ہوں پردے کان میں

    لن ترانی کا بیان افسانہ ہے

    ٹھنڈے ٹھنڈے سوتے ہیں زیر زمیں

    گور اپنے واسطے تہہ خانہ ہے

    کیا بنے سودا ترا اے خود فروش

    مول جو ہم نے کہا بیعانہ ہے

    دیکھتے ہیں بت مری بیتابیاں

    سر بہکنا سجدۂ شکرانہ ہے

    کیا ترا آئینۂ رو صاف ہے

    نقد جاں لیتا یہاں جرمانہ ہے

    گرم نالے سرد ہیں اے ہم صفیر

    ظاہراً کنج قفس خس خانہ ہے

    کی مے مفت آج قاضی نے حلال

    فی سبیل اللہ ہر مے خانہ ہے

    اختلاط اپنے عناصر میں نہیں

    جو ہے میرے جسم میں بیگانہ ہے

    کیا سمندر کو دکھائیں گرمیاں

    دوزخ اپنا ایک آتش خانہ ہے

    ہو گئے مثل سلیماں اہل عشق

    اے پری کیا ہمت مردانہ ہے

    دل ہے آئینہ تو اسکندر ہوں میں

    حسن کی دولت مرا نذرانہ ہے

    عرش تک گردوں سے دیکھا اے صنم

    سات زینے کا یہ بالا خانہ ہے

    کھیل جاتے ہیں ہزاروں جان پر

    عشق بازی بازیٔ طفلانہ ہے

    جان دیتا ہوں مگر آتی نہیں

    موت کو بھی ناز معشوقانہ ہے

    پاتے ہیں نقد زر گل بے حساب

    باغ عالم اس کا دولت خانہ ہے

    آج ہے محو شنا وہ شمع رو

    ہر پر ماہی پر پروانہ ہے

    دل کہاں یہ نفس امارہ کہاں

    آئنہ پیش سگ دیوانہ ہے

    عفت مشاطہ کس سے ہو بیاں

    پنجۂ مریم تمہارا شانہ ہے

    مے کدہ کے کام دل سے لیجئے

    خم کا خم پیمانہ کا پیمانہ ہے

    لکھنؤ کا مجھ کو سودا ہے منیرؔ

    دل حسین آباد پر دیوانہ ہے

    مأخذ:

    Muntakhabul-Alam (Pg. 197)

    • مصنف: منیر  شکوہ آبادی
      • اشاعت: 1831
      • ناشر: مطبع سعیدی
      • سن اشاعت: 1848

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے