شور دل میں اس طرف کی خامشی سے بچ گئی
شور دل میں اس طرف کی خامشی سے بچ گئی
اک محبت پھر کسی دیوانگی سے بچ گئی
وہ گماں اس کا کہ ہے خوشیوں کی منزل کوئی اور
رنج یہ میرا کہ وہ اپنی خوشی سے بچ گئی
جسم و جاں کو روشن و سرشار کرتی اک کھنک
میں لئے پھرتا ہوں جو اس کی ہنسی سے بچ گئی
میں نے جانا اب ہوا ہر آگ سے خالی یہ دل
اک یہ چنگاری کہاں اس پھلجھڑی سے بچ گئی
نت نئے رستے بنا لیتا ہے سیلاب بلا
کون سی بستی ہے جو غارت گری سے بچ گئی
دن وہ اچھا جس میں اجیالے کا میلا پن نہ ہو
رات وہ اچھی جو کالی روشنی سے بچ گئی
اک زمانہ میں بڑا شہرا تھا میری عقل کا
اب تو بس وہ ہے جو زعم آگہی سے بچ گئی
شعر کیوں کہتے ہو اعظمؔ یہ سخن کس کے لیے
اب غزل مقبول ہے جو شاعری سے بچ گئی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.