ستاروں کی ضیا بن کر فرشتوں کا سلام آیا
ستاروں کی ضیا بن کر فرشتوں کا سلام آیا
زبان بسملؔ وارفتہ پر جب ان کا نام آیا
دو عالم نور میں ڈوبے ہوئے معلوم ہوتے ہیں
بھری محفل میں کیا بے پردہ وہ ماہ تمام آیا
رہا ہوں پا بہ آتش ہو کے زندان عناصر میں
خدا کا شکر ہے میری رہائی کا پیام آیا
مجھے دشوار ہوگا ہنستے ہنستے جان دے دینا
دم آخر اگر وہ آئے یا ان کا پیام آیا
وہ پابند محبت ہو گئے اٹھتی جوانی میں
جوانی ہو گئی آسودہ جب ان کا سلام آیا
ترے حسن نظر کا کیا یہی معیار ہے ساقی
کبھی ہم کو نہ اپنایا کبھی ہم تک نہ جام آیا
ہزاروں آفتاب آنکھوں کے آگے کانپ کانپ اٹھے
یہ کس کا ذکر آیا بزم میں یہ کس کا نام آیا
نہ وہ شور سلاسل ہے نہ وہ زور جنوں ہمدم
ہماری زندگی کا آفتاب اب زیر بام آیا
میں آخر موت کا کب تک رہوں شرمندۂ احساں
نہ وہ آئے نہ اب تک ان کے آنے کا پیام آیا
ہوئی مجھ سے نہ تسکین غم پنہاں بھی اے بسملؔ
مری ہستی کا شیرازہ کسی کے بھی نہ کام آیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.