سلیمان سخن تو خیر کیا ہوں
یکے از شہر یاران سبا ہوں
وہ جب کہتے ہیں فردا ہے خوش آیند
عجب حسرت سے مڑ کر دیکھتا ہوں
فراق اے ماں کہ میں زینہ بہ زینہ
کلی ہوں گل ہوں خوشبو ہوں صبا ہوں
سحر اور دوپہر اور شام اور شب
میں ان لفظوں کے معنی سوچتا ہوں
کہاں تک کاہلی کے طعن سنتا
تھکن سے چور ہو کر گر پڑا ہوں
ترقی پر مبارک باد مت دو
رفیقو میں اکیلا رہ گیا ہوں
کبھی روتا تھا اس کو یاد کر کے
اب اکثر بے سبب رونے لگا ہوں
سنے وہ اور پھر کر لے یقیں بھی
بڑی ترکیب سے سچ بولتا ہوں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.