صراحی مضمحل ہے مے کا پیالہ تھک چکا ہے
صراحی مضمحل ہے مے کا پیالہ تھک چکا ہے
در ساقی پہ ہر اک آنے والا تھک چکا ہے
اندھیرو آؤ آ کر تم ہی کچھ آرام دے دو
کہ چلتے چلتے بیچارہ اجالا تھک چکا ہے
عداوت کی دراریں ویسی کی ویسی ہیں اب تک
وہ بھرتے بھرتے الفت کا مسالہ تھک چکا ہے
مجھے لوٹا ضرورت کی یہاں ہر کمپنی نے
مسلسل کرتے کرتے دل کفالت تھک چکا ہے
سخن میں کچھ نئے مجموعہ لے کر آئیے آپ
پرانی شاعری سے ہر رسالہ تھک چکا ہے
بتا اے فیضؔ آخر گاؤں جا کر کیا کرے گا
تو جس کے نام کی جپتا تھا مالا تھک چکا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.