تلخ باتیں تری بھلا رکھوں
طاق پر سب کہا سنا رکھوں
مفلسی روز مجھ سے کہتی ہے
کل پہ آرام کو اٹھا رکھوں
شوق سے اس نے پیش قدمی کی
کیسے خود کو گریز پا رکھوں
حشر برپا ہیں ہر طرف جلوے
کس طرح خود کو پارسا رکھوں
کب سہولت سے ہاتھ آتی ہے
سینت کر غم کی ہر عطا رکھوں
اک تری دوستی کی خاطر میں
بول کس کس کو اب خفا رکھوں
نکتہ چیں سے جو واسطہ ہے پڑا
اپنا لہجہ نپا تلا رکھوں
تار مضراب چھیڑ دو تم بھی
میں بھی اک غم کا سر لگا رکھوں
ان کے آنے کی پھر خبر ہے ملی
غم کدے کو ذرا سجا رکھوں
اس کی باتوں میں لاکھ معنی ہیں
خود کو گر حرف آشنا رکھوں
یہ ستم کب تلک سہوں نسرینؔ
کیوں نہ اک حشر اب اٹھا رکھوں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.