تمام تاب و تپش آفتاب رکھ دے گا
تمام تاب و تپش آفتاب رکھ دے گا
جبیں پہ ہاتھ جو اک ماہتاب رکھ دے گا
الجھ رہے ہو یہ کس سے سوال سے پہلے
کوئی نہ کوئی نیا اک جواب رکھ دے گا
سنا سنا کے کہانی وہ سبز لمحوں کی
تمہاری آنکھوں میں بس ایک خواب رکھ دے گا
ورق ورق پہ مرا نام جب بھی دیکھے گا
خجل سا ہو کے خود اپنی کتاب رکھ دے گا
اٹھا اتار دے دل میں کہ سوچتا کیا ہے
مرا لہو ترے خنجر پہ آب رکھ دے گا
میں جانتا تھا کہ اک دن مری نظر کا فریب
سمندروں کے بھی آگے سراب رکھ دے گا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.