تمام عمر کی غفلت کے بعد خواب آیا
اٹھا جو پردۂ ہستی مجھے حجاب آیا
اجل نصیب تھا شام وصال خواب آیا
وہ بے حجاب ہوئے تو مجھے حجاب آیا
بلا ہے عہد جوانی سے خوش نہ ہو اے دل
سنبھل کہ عمر کی دنیا میں انقلاب آیا
بڑھائے حوصلے دریا دلی نے ساقی کی
ذرا سے جام میں سو بار آفتاب آیا
کوئی صدا نہیں آتی کہ کون ہے کیا ہے
کہاں بھٹک کے دل خانماں خراب آیا
امید و بیم میں رکھا تمام رات مجھے
کبھی نقاب اٹھائی کبھی حجاب آیا
زمانے والوں کو پہچاننے دیا نہ کبھی
بدل بدل کے لباس اپنے انقلاب آیا
سوائے یاس نہ کچھ گنبد فلک سے ملا
صدا بھی دی تو پلٹ کر وہی جواب آیا
اڑا کے ہوش ہوا ہو گئی تجلی طور
سبھوں سے آنکھ چراتا ہوا حجاب آیا
حریف مے نہیں سمجھا تو کیوں مری جانب
لہو کے گھونٹ پئے ساغر شراب آیا
ہٹے نہ اپنی طبیعت سے حسن و عشق کبھی
ہزار بار زمانے میں انقلاب آیا
سنائیں کیا تمہیں نیرنگ عشق کا قصہ
تمام عمر نہ آنکھیں کھلیں نہ خواب آیا
کھٹک وہ دل میں ہی پیدا جو آج تک نہ ہوئی
سمجھ رہا ہوں کہ طفلی گئی شباب آیا
کفن پنہا دیا ثاقبؔ صنم پرستی نے
خدا کے سامنے جاتے ہوئے حجاب آیا
مأخذ:
Deewan-e-Saqib (Pg. 137)
-
مصنف:
Mirza Zakir Husain Qazlibaas Saqib Lucknowvi
-
- اشاعت: 1998
- ناشر: Urdu Acadami U.P.
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.