تنہائی میں بھی خود سے ملو تو ملا نہ جائے
تنہائی میں بھی خود سے ملو تو ملا نہ جائے
سایہ کی طرح ساتھ رہو تو رہا نہ جائے
سناٹے سے ابھر تو رہی ہے کوئی صدا
یہ اور بات ہے کہ سنو تو سنا نہ جائے
اللہ رے یہ کیفیت احتیاط عشق
خط میں بھی حرف شوق لکھو تو لکھا نہ جائے
کیا حرف مدعا کوئی اقرار جرم ہے
اب وہ بھی کہہ رہے ہیں کہو تو کہا نہ جائے
یہ کیا کہ سوئے دشت اٹھیں خود بخود قدم
آبادیوں کی سمت چلو تو چلا نہ جائے
اس طرح تھک کے بیٹھ رہے ہمرہان شوق
منزل بھی خود کہے کہ اٹھو تو اٹھا نہ جائے
جام مے نشاط کوئی زہر تو نہیں
یہ کیا کہ ایک گھونٹ پیو تو پیا نہ جائے
لائی ہے اس مقام پہ بے چارگیٔ غم
وہ بھی اگر کہیں کہ مرو تو مرا نہ جائے
اخترؔ یقین وعدۂ فردا تو کر لیا
ایفائے عہد تک ہی جیو تو جیا نہ جائے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.