طنز کے پتھر مسلسل ہم پہ برساتے رہے
طنز کے پتھر مسلسل ہم پہ برساتے رہے
کچھ کرم احباب اپنے یوں بھی فرماتے رہے
عشق کا الزام تنہا کیوں رہے میرے ہی سر
دم بہ دم تم بھی تو میری راہ میں آتے رہے
شور میں آواز ان کی کوئی بھی سنتا نہ تھا
بھیڑ میں کتنے گداگر ہاتھ پھیلاتے رہے
آپ نے شاید ہمارا حوصلہ دیکھا نہیں
زخم کھا کر دوستوں پر پھول برساتے رہے
غیر ممکن تھا زمانے میں مرے دل کا علاج
جانے کیا کیا کہہ کے ہم کو لوگ بہلاتے رہے
اس کی یادوں سے سجائی اپنی بزم آرزو
دل کو تنہائی میں اظہرؔ یوں بھی بہلاتے رہے
مأخذ:
غزلستان برار (Pg. 402)
-
- ناشر: ساجد اردو پریس، اکولہ
- سن اشاعت: 2015
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.