طرح طرح کے فسانے سنانے لگتی ہے
طرح طرح کے فسانے سنانے لگتی ہے
اڑوں تو میری زمیں چھٹپٹانے لگتی ہے
غرور نسل ہے یک لخت تو نہ جائے گا
کہ لگتے لگتے یہ دولت ٹھکانے لگتی ہے
نہ جانے کیسی ہوا ہے کہ رات ہوتے ہی
بدن میں آ کے مرے خاک اڑانے لگتی ہے
میں اپنی پیاس پہ جب صبر باندھ دیتا ہوں
تو جو ندی بھی ملے آزمانے لگتی ہے
جہاں جہاں بھی میں اس سے گریز کرتا ہوں
وہیں وہیں سے وہ آواز آنے لگتی ہے
خیال تک بھی اگر اس کا نام آ جائے
وہ ہاتھ چپکے سے میرا دبانے لگتی ہے
وہ ایک خوشبو ہے آتی نہیں نظر لیکن
قریب آتے ہی خود کو بتانے لگتی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.