طواف کرتا ہے اک پرندہ صنوبروں کا
طواف کرتا ہے اک پرندہ صنوبروں کا
کہ تیز آندھی میں کیا بھروسہ ہے شہپروں کا
میں اپنی یادوں سے کوئی صورت نکال لوں گا
میں کس خوشی میں اٹھاؤں احسان پتھروں کا
دیار وحشت میں کوئی نقارا بج رہا ہے
نواح دل سے قریب ہے کوچ لشکروں کا
وہ دیکھتا ہے طویل راتوں میں خواب اکثر
پہاڑیوں سے نشیب میں گرتے پتھروں کا
زمین کے زخم دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں
گناہ یہ فوجیوں کا تھا یا سکندروں کا
وہ فتح مندی کا اک نشاں تھا کہاں گیا وہ
اسی علاقے میں ایک مینار تھا سروں کا
ہم آج آ بیٹھے تیرے در پر سو ہم سے مل لے
کہ ہم قلندر ہیں کیا بھروسہ قلندروں کا
ہماری بستی کے غوطہ خوروں میں دم کہاں ہے
کہ موتیوں سے مزاج پوچھیں سمندروں کا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.