تذکرہ میری جوانی کا وہاں کام آیا
اس نے انگڑائی لی جس وقت مرا نام آیا
قتل نامہ جو ضرورت سے اٹھایا اس نے
مسکرانے لگا جس وقت مرا نام آیا
دل کو پامال کیا اس کی حقیقت کیا تھی
آپ کے نام کا تھا آپ ہی کے کام آیا
عشق بازی میں مری دوستو اتنی تھی حیات
دل لگانا تھا کہ بس موت کا پیغام آیا
جان جب دی ہے تو یہ مرتبہ الفت میں ملا
یار کے نام کے ہم راہ مرا نام آیا
بزم ساقی کی مجھے روز خبر ملتی ہے
دل مرا کہتا ہے گردش میں وہاں جام آیا
بچپنا گزرا شباب آ گیا تیور بدلے
اتنی مدت میں مرے قتل کا ہنگام آیا
جب مجھے خط میں لکھا عاشق جانباز لکھا
حفظ کرتے رہے اب تک نہ مرا نام آیا
ان کو معلوم ہوا جیسے یہ عاشق ہے مرا
پھر نہ اس دن سے کوئی نامہ و پیغام آیا
آیا میت پہ لحد میں بھی اتارا مجھ کو
جس سے امید نہ تھی کچھ وہ مرے کام آیا
دیکھنے والوں کی اب جان کا بچنا ہے محال
پوری زینت کئے وہ شوخ سر بام آیا
اس کو پھر اپنے ہی سینے سے لگایا میں نے
اس کے کوچہ سے جو میرا دل ناکام آیا
دن تو فرقت کا کٹا رات کٹے گی کیونکر
دل دھڑکتا ہے کہ اب شام کا ہنگام آیا
بعد مرنے کے مجھے آپ سے خفت یہ ہے
جان تو موت نے لی آپ پہ الزام آیا
جب سنا ان کا شباب آیا تو کہتا ہے شفیقؔ
منتیں مانی ہیں جب قتل کا ہنگام آیا
مأخذ:
عطیۂ الٰھی (Pg. 39)
-
مصنف:
سید احمد حسین شفیق لکھنوی
-
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.