تھکن سے تن بدن ٹوٹا پڑا ہے
تھکن سے تن بدن ٹوٹا پڑا ہے
مسافت کو مگر رستہ پڑا ہے
لہو سے تربتر ہیں پاؤں لیکن
ہمیں ہر حال میں چلنا پڑا ہے
یہاں میں تشنگی سے جاں بلب ہوں
ادھر میلوں ابھی صحرا پڑا ہے
کوئی سانسیں بھلا کب تک خریدے
یہ سودا تو بہت مہنگا پڑا ہے
یہ رات اب تک نہیں سلجھی ہے مجھ سے
ادھر دن بھی ابھی الجھا پڑا ہے
میں آخر اب اسے کیسے سنبھالوں
یہاں تو گھر کا گھر بکھرا پڑا ہے
بہت بے چین سا رہتا ہوں دن بھر
سنا ہے گاؤں میں سوکھا پڑا ہے
بلاتا ہے مجھے آواز دے کر
وہ میرے گھر کا جو ملبہ پڑا ہے
مرا چندا گیا پردیس جب سے
یہ گھر آنگن بہت سونا پڑا ہے
بہت بیزار سے لگتے ہو تم بھی
اثر تم پر نفسؔ گہرا پڑا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.