تشنگی ایسی کہ دریاؤں کا پانی گھٹ جائے
تشنگی ایسی کہ دریاؤں کا پانی گھٹ جائے
سامنے آئے جو پیاسا تو سمندر ہٹ جائے
کیا ہے شمشیر زنی دل سے تو پوچھو اس کے
کسی غازی کا جو میدان میں بازو کٹ جائے
بڑھتا جاتا ہے فضاؤں میں گھٹن کا احساس
گھر کا آنگن بھی جو آزاد فضا میں بٹ جائے
پھر تو ہو جائے یقینا یہی دنیا جنت
سر سے اپنے جو کہیں جنگ کا بادل چھٹ جائے
دیکھ کر اپنے ہی بچوں میں یہ نفرت یہ جلن
کہیں ایسا نہ ہو دھرتی کا کلیجہ پھٹ جائے
ہو اہنسا نہ تشدد نہ اراجکتا ہو
دھرم جس کا ہو محبت وہی گنگا تٹ جائے
آدمی وہ ہے کہ ہوں دیر و حرم ایک سمان
گر سبق سب کو اہنسا کا بھی دل سے رٹ جائے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.